Monday, 20 March 2017

Kuch Imla Ki Baten



کچھ املا کی باتیں
(1) اعلیٰ، ادنیٰ، عیسیٰ، موسیٰ
عربی کے کچھ لفظوں کے آخر میں جہاں الف کی آواز ہے، وہاں بجائے الف کے ی لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، دعویٰ، فتویٰ۔ اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں، مثلاً تماشا، تمنا، تقاضا، مدعا، مولا، لیکن کئی لفظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں ٹھیک سے معلوم نہیں کہ انھیں پورے الف سے لکھنا چاہیے یا چھوٹے الف سے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے املا کے اس انتشار کو دور کرنے کے لیے تجویز کیا تھا کہ اردو میں ایسے تمام الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے، لیکن یہ چلن میں نہیں آ سکا۔ چنانچہ سرِ دست یہ اصول ہونا چاہیے کہ اس قبیل کے جو الفاظ اردو میں پورے الف سے لکھے جاتے ہیں اور ان کا یہ املا رائج ہو چکا ہے، ایسے الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے۔ باقی تمام الفاظ کے قدیم املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، اور یہ بدستور چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں۔
پورے الف سے لکھے جانے والے الفاظ:
مولا مُصفّا تَوَلّا مُدّعا تقاضا مُتفا تماشا
مُدّعا علیہ تمنّا ہیولا نصارا مقتدا مقتضا ماوا

باقی تمام الفاظ چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں:
ادنیٰ اعلیٰ عیسیٰ موسیٰ یحییٰ مجتبیٰ مصطفیٰ مرتضیٰ
دعویٰ فتویٰ لیلیٰ تعالیٰ معلیٰ صغریٰ کبریٰ کسریٰ
اولیٰ منادیٰ مثنیٰ مقفیٰ طوبیٰ ہدیٰ معریٰ عقبیٰ
تقویٰ متبنّیٰ حسنیٰ قویٰ مستثنیٰ حتیٰ کہ عہدِ وسطیٰ مجلسِ شوریٰ
یدِ طولیٰ اردوئے معلّیٰ من و سلویٰ عید الضّحیٰ مسجد اقصیٰ سدرۃ المنتہیٰ شمس الہدیٰ

ذیل کے الفاظ کے رائج املا میں بھی کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں:
اللہ الہ الٰہی






(2) دعوائے پارسائی، لیلائے شب
اضافت کی صورت میں ایسے تمام الفاظ الف سے لکھے جاتے ہیں اور یہی صحیح ہے، جیسے:
لیلائے شب دعوائے پارسائی فتوائے جہاں داری

(3) عربی مرکبات
یہ بات اصول کے طور پر تسلیم کر لینی چاہیے کہ عربی کے مرکّبات، جملے، عبارتیں یا اجزا جب اردو میں منقول ہوں تو ان کو عربی طریقے کے مطابق لکھا جائے، مثلاً
عَلَی الصّباح عَلَی الرَّغم عَلَی العُموم عَلَی الحساب عَلَی الخُصوص حتّی الاِمکان حتّی الوَسع حتّی المقدور
بالخُصوص عَلیٰ ہٰذا لقَیاس

(4) رحمٰن، اسمٰعیل
بعض عربی الفاظ میں چھوٹا الف درمیانی حالت میں لکھا جاتا ہے، جیسے رحمٰن، اسمٰعیل، ان میں سے کئی لفظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی یہ تجویز مناسب ہے کہ اردو میں ایسے سب الفاظ کو الف کے ساتھ لکھا جائے۔
رحمان ابراہیم سلیمان مولانا یاسین اسحاق لقمان اسماعیل
البتہ جب ایسا کوئی لفظ قرآن پاک کی سورتوں کے نام یا اللہ کے اسمائے صفات کے طور پر استعمال ہو گا تو اس کا اصلی املا برقرار رہے گا۔ عربی ترکیب میں بھی اصلی املا برقرار رہنا چاہیے۔

(5) علٰحدہ
علٰحدہ یا علیحدہ کو علاحدہ لکھنا چاہیے، اسی طرح علاحدگی (ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی)

(6) لہٰذا
لفظ لہٰذا کی بھی رائج صورت میں تبدیلی کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ لفظ اسی املا کے ساتھ پوری چلن میں آ چکا ہے۔

(7) معمّہ، تمغہ، معمّا، تمغا
عربی اور ترکی کے کچھ لفظوں کے آخر میں الف ہے، لیکن ان میں سے بعض لفظ ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ اس بارے میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو لفظ ہ سے رائج ہو چکے ہیں، ان کا املا ہ سے مان لینا چاہیے، باقی الفاظ کو الف سے لکھنا چاہیے۔ ذیل کے الفاظ ہ سے صحیح ہیں:
شوربہ چغہ سقہ عاشورہ قورمہ ناشتہ ملغوبہ الغوزہ

ذیل کے الفاظ الف سے لکھنے چاہییں:
معمّا تماشا تقاضا حلوا مربّا مچلکا بقایا تمغا
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے بھی ان میں سے بیشتر الفاظ کو الف سے لکھنے کی سفارش کی ہے۔

(8) بالکل، بالتّرتیب
ایسے مرکب لفظ اردو میں اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو عربی قاعدے کے مطابق الف لام کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ ایسے مرکّبات کی دو صورتیں ہیں، ایک وہ جہاں الف لام حروفِ شمسی (ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل، ن) سے پہلے آیا ہے اور بعد کا حرف مشدّد بولا جاتا ہے تو الف لام آواز نہیں دیتا، جیسے عبد السّتار یا بالتّرتیب میں۔ دوسرے وہ جن میں الف لام حروفِ قمری (باقی تمام حروف) سے پہلے آیا ہے تو لام تلفظ میں شامل رہتا ہے، جیسے بالکل یا ملک الموت میں۔ ہمیں سیّد ہاشمی فرید آبادی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کہ حروفِ شمسی و قمری کا فرق اردو میں اٹھا دینا چاہیے، ہمارا خیال ہے کہ یہ طریقہ اردو املا کا جز ہو چکا ہے، اِس کو بدلنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کا وہی قدیم املا برقرار رکھنا چاہیے:
فی الحال بالکل انا الحق بالفعل ملک الموت

البتہ یہ ضروری ہے کہ جہاں الف لام آواز نہ دے وہاں لام کے بعد والے حرف پر تشدید لگائی جائے، اور ان الفاظ میں الف لام کو اردو کے خاموش حروف تسلیم کر لیا جائے۔ پڑھنے والوں کو تشدید سے معلوم ہو جائے گا کہ الف لام تلفظ میں نہ آئے گا:
عبدُ السّتّار شجاعُ الدّولہ عبدُ الرّزّاق لغاتُ النّساء بالتّرتیب فخرُ الدّین


الف ممدودہ

الف ممدودہ کا مسئلہ صرف مرکّبات میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی دل آرام لکھا جائے یا دلارام۔ ایسی صورت میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ معیاری تلفّظ کو رہنما بنایا جائے اور مرکّب جیسے بولا جاتا ہو، ویسے ہی لکھا جائے۔

بغیر مد کے:
برفاب تیزاب سیلاب غرقاب سیماب زہراب گلافتاب تلخاب
سردابہ گرمابہ مرغابی خوشامد دستاویز

مع مد کے:
گرد آلود دل آویز عالم آرا جہان آباد دل آرا دل آرام دو آبہ ابر آلود
خمار آلود قہر آلود زہر آلود زنگ آلود خون آلود رنگ آمیز درد آمیز جہاں آرا
حسن آرا خانہ آباد عشق آباد عدم آباد


تنوین

اردو میں عربی کے ایسے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں جن پر دو زبر آتے ہیں، جیسے فوراً، عموماً، وقتاً، فوقتاً، اتفاقاً۔ تنوین اردو املا کا حصّہ بن چکی ہے۔ اس لیے اسے بدلنا مناسب نہیں۔ چنانچہ فوراً کو فورن لکھنے کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔ اس کو فوراً لکھنا ہی صحیح ہے۔ البتہ وہ لفظ تصفیہ طلب ہیں جن کے آخر میں ت آتی ہے۔ ایسے لفظوں کے بارے عربی املا کا اصول یہ ہے کہ اگر ت کسی لفظ کے مادے میں شامل ہے تو تنوین کی صورت میں اُس پر الف کا اضافہ کر کے تنوین لگائی جاتی ہے، جیسے وقتاً فوقتاً۔ لیکن اگر ت مادے میں شامل نہیں تو وہ تائے مُدَوَّرہ ۃ کی صورت میں لکھی جاتی ہے اور اس پر دو زبر لگا دیے جاتے ہیں، جیسے عادۃً۔ اس صورت میں الف کا اضافہ نہیں کیا جاتا اور تنوین تائے مُدَوَّرہ پر لگائی جاتی ہے۔ اردو املا میں عام طور سے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا، اور تنوین ایسے تمام الفاظ میں الف کا اضافہ کر کے لگائی جاتی ہے۔
اس ضمن میں ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس اصول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ "عربی کی ۃ کو اردو میں ہمیشہ ت لکھنا چاہیے"۔ چنانچہ اردو میں تنوین کے لیے ت والے لفظوں کے بارے میں قاعدہ یہ ہوا کہ سب لفظوں کے آخر میں الف کا اضافہ کر کے تنوین لکھی جائے، مثلاً
نسبتاً مروَّتاً کنایتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً شکایتاً کلیتاً
قدرتاً حقیقتاً حکایتاً طبیعتاً وقتاً فوقتاً شریعتاً طاقتاً
اشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقیدتاً وضاحتاً شرارتاً


..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg



0 comments:

Post a Comment