دورِ حاضر میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی
تعلیم اور مسلمانوں
کا ہردور میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک تعلیم کی اہمیت اس لیے بھی
ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی کا نور بھی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر
کرتے ہوئے نازل ہوا۔
تعلیم کسی بھی
قوم کے لیے ترقی کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہے۔ جوقومیں علم حاصل کرنے میں کمال
پیدا کرتے ہوئے اس کی روشنی سے استفادہ کرتی ہیں وہی قومیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے
میدان میں ترقی کرکے دنیا پر حکمرانی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرتی ہیں۔
دورِ حاضر میں
مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کا گراف تشویش ناک ہے۔ ۵۷؍
آزاد اور خود مختار اسلامی ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباً سوا
ارب ہے اس آبادی کا تقریباً ۴۰؍
فی صد حصہ اَن پڑھ ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں موجود ۲۰؍
فی صد یونیورسٹیز کی تعداد تقریباً ۳۵۰؍
ہے ۔ جن میں نمایاں طور پرجامعہ الازہر (قاہرہ مصر ۹۷۰ء)، پنجاب یونی ورسٹی (لاہور
۱۸۸۲ء)
،تہران یونی ورسٹی ( دانش گاہِ تہران ۱۸۵۱ء) ، انڈونیشیا یونی
ورسٹی ( جکارتہ ۱۹۵۰ء)
، جامعہ ملک سعود (ریاض ۱۹۵۷ء)
وغیرہ شامل ہیں۔اِن یونیورسٹیوں سے سالانہ ایک ہزار افراد پی ایچ ڈی کرتے ہیں ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی
کے شعبوں میں اِن اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف ۸۰؍
لاکھ کے قریب ہے ۔ جو ان شعبوں میں مصروف عالمی آبادی کا تقریباً ۴؍
فی صد ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور ۲۰؍
لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں ۔ جب کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی
سائنسی اور تحقیقی کتب اور مقالات کی سالانہ تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔ اور یہ سب
عصری تعلیم میں مسلمانوں کی تشویش ناک پسماندگی کا ایک ثبوت ہے۔
مختلف اخباری رپورٹوں
کی بنیاد پر کیا گیا درج بالا تجزیہ اُن اسلامی ممالک کا مجموعی حال ہے ۔ جن کی آزاد
مملکتیں زمین کے تقریباً تین کروڑ مربع کلو میڑ پر محیط ہیں ۔یہ وہ مملکتیں ہیں جو
دنیا میں موجود تیل کے مجموعی ذخائر کے تین چوتھائی حصے کی مالک ہیں اور جنھیں بے پناہ
قدرتی وسائل سے استفادے کی سہولت میسر ہے۔ باوجود اس کے عصری تعلیم میں مغرب سے مقابلہ
کرنے کی بجائے غفلت اور تساہلی نے اسلامی ممالک کو ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ
دیا ہے۔ افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ مسلمان آج عصری تعلیم میں تو پسماندگی کے شکار
ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ دینی تعلیم میں بھی مسلمانوں کی ترقی قابلِ ذکر نہیں ہے۔
وطنِ عزیز ہندوستان
کے مسلمانوں کی تعلیمی کیفیت بھی بڑی دگرگوں اور حد درجہ تشویش ناک ہے۔ مسلمانوں کی
زندگی کے جملہ شعبہ جات سے متعلق تحقیقی جائزہ لینے کے لیے حکومت ہند نے ۲۰۰۴ء میں جسٹس راجندر
سچر کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ۔ جس نے بڑی عرق ریزی اور جا ں فشانی سے ہندوستانی
مسلمانوں کی اقتصادی ، تعلیمی ، سماجی اور دیگر شعبوں سے متعلق جو رپورٹ پیش کی وہ
نہایت چشم کشا اور المیہ انگیز ہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ
کے مطابق بہ حیثیتِ مجموعی مسلمان ہندوستان میںنہایت پسماندہ ہیں ،نہ تو معاشی طور
پر مضبوط ہیں اور نہ ہی سماجی طور پر دیگر قوموں کے مقابلہ میں بلند معیار ہیں، رہا
مسئلہ تعلیم کا تو تعلیم کے علمبردار ہونے کے باوجود مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی نہایت
درجہ تشویش ناک ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں عموماً یہ تصور عام رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں
کوزیادہ تر مذہبی تعلیم ہی دلواتے ہیں۔ لیکن سچر کمیٹی نے اس حقیقت کو بھی واشگاف کیا
کہ مسلمانوں کے صرف چار فی صد بچے ہی دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ یہ اعدادو
شمار صرف عام لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے لیے بھی کسی المیہ سے کم نہیں
کہ ہندوستان میں صرف چار فی صد مسلم بچے دینی تعلیم کے حصول میں کوشاں ہیں جب کہ آبادی
کے تناسب سے یہ اعداد و شمار کم از کم ۵۰؍
فی صد تو ہونے چاہئیں۔ لیکن مسلمان عصری تعلیم تو کجا ،دینی تعلیم میں بھی پسماندگی
کا شکار ہیں ۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ
میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے اجزا کا جب ہم تحلیلی جائزہ لیتے ہیں تو ہم پر
حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ ہندوستان کی مجموعی آبادی کے لحاظ سے عصری درسگاہوں
،اسکولس، کالجز اور یونی ورسٹیز میں ہماری تعداد انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہے۔ ہندوستان
کی مجموعی شرح خواندگی حالیہ مردم شماری کے مطابق ۶۵؍
فی صد ہے ۔ مسلمانوں میں یہ شرح ۵۹؍
فی صد ہے جب کہ ہندو ۶۵؍
فی صد ، عیسائی ۸۰؍
فی صد ، سکھ ۶۹؍
فی صد ، بدھ ۷۲؍
فی صد اور جین ۹۴؍
فی صد کے ساتھ تعلیمی میدان میں سب سے آگے ہیں ۔مسلمانوں میں مردوں کی شرح خواندگی
۶۸؍
فی صد اور عورتوں کی شرح خواندگی ۵۰؍
فی صد ہے ، جو کہ متذکرہ بالا شمارکرائے گئے دیگر مذاہب کی شرح خواندگی سے بہت ہی کم
ہے۔ جس مذہبِ مہذب کی بنیاد ہی تعلیم و تعلم پر ہے ، اور جس کے مقدس پیغمبر معلمِ کائنات
صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور اُن پر نازل شدہ قرآن کریم کی بے شمار آیات تعلیم
کی اہمیت کو اجاگر کرے ، آخر کیوں اُسی مذہب کے ماننے والے تعلیم کے میدان میں افسوسناک
حد تک دیگر مذاہب سے اس قدَر بچھڑے ہوئے ہیں کہ الامان و الحفیظ!!
مسلمانوں کا شان
دار ماضی بس ایک قصۂ پارینہ بن کر رہ گیا ہے ۔ اب تو حالات اس قدَر سنگین ہوچکے ہیں
کہ اپنی علمی فتوحات سے بھی ہم ناواقف ہوتے جارہے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی دورِ
حاضر میں تعلیمی پسماندگی ہمارے لیے سامانِ عبرت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی ذمہ داری
حکومت کے سر نہ ڈالتے ہوئے اپنا احتساب کریں کہ ہم اپنی اور اپنی قوم کی تعلیمی ترقی
کے لیے کیا کررہے ہیں ۔مسلمانوں میں امیر طبقے کو چاہیے کہ وہ غریبوں کے تعلیمی اخراجات
برداشت کرنے کے لیے اپنے تئیں اسکالر شپ اور وظائف کا نظم کرے تاکہ مسلم قوم کا تعلیمی
میدان میں جاری جمود پر کنٹرول کیا جاسکے۔
تعلیمی پسماندگی
کے اس عبرت ناک اور تشویش ناک منظر نامے پر خانقاہِ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ
کے صاحب سجادہ حضرت اقدس پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امین میاں صاحب قبلہ دام ظلہٗ کے قول:’’
آدھی روٹی کھائیے بچوں کو پڑھائیے ‘‘ پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی
و عصری تعلیم سے دوری کے سبب پیدا شدہ پسماندگی کے اس عالمی تناظر میں باوقار زندگی
گذارنے کے لیے تعلیم کا حصول نہایت اہم اور ضروری ہے۔ مسلم اُمّہ کو اپنا کھویا ہوا
وقار واپس لانے کے لیے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے میدان میں کامرانیوں
کا عَلَم بلند کرنا بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ عصری تعلیم کے حصول کے بغیر ہم ترقی یافتہ
قوموں کے شانہ بہ شانہ ہرگزنہیں چل سکتے ۔
0 comments:
Post a Comment