(حدیث)علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے

علم انسان کو صحیح طریقے سے زندگی گذارنے کا طریقہ بتاتا ہے ۔ کامیاب انسان وہی ہے جس نے علم حاصل کیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ ڈاکٹر مشاہد رضوی

Read the go ahead . سب پڑھیں ۔آگے بڑھیں

یوں علم کی چاہ میں نکلے ہیں اپنا بھی نشاں معلوم نہیں ۔۔۔ جانا ہے وہاں ، منزل ہے جہاں ، منزل ہے کہاں ، معلوم نہیں

Knowledge is Light.Prophet Hazrat Muhammed Peace Be Upon Him

The Hadith of the Prophet Hazrat Muhammed Peace Be Upon Him

Eat Half Bread....Educate children آدهی روٹی كهایئے ۔ بچوں كو پڑهائیے ۔ سید نجیب حیدر میاں برکاتی

Slogan Khanqah E Barkaatia Marehra Shareef خانقاہ برکاتیہ ، مارہرہ مطہرہ کا نعرہ

Thursday 9 February 2017

Asri Taleem Manfi Wo Musbat Nazariat



عصری تعلیم-منفی و مثبت نظریات



            عصری تعلیم اپنی مختلف خوبیوں اور خامیوں کے پیشِ نظر مسلمانوں میں ہمیشہ بحث و تمحیص کا موضوع بنی رہی ہے۔ اس کے تئیں منفی اور مثبت دونوں نظریات ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔جہاں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ عصری تعلیم کا زبردست حامی رہا ہے وہیں وہ طبقہ جس میں ہمارے بعض علماے کرام بھی شامل ہیں ، جدید اور عصری تعلیم کا مکمل طور پر انکار نہ کرتے ہوئے بھی حتی الامکان عصری تعلیم سے دوری بنائے رکھنے کے قائل نظر آتا ہے۔ جولوگ عصری تعلیم کے فوائد و ثمرات کی حمایت میں ہیں اُن کی دلیل یہ ہوا کرتی ہے کہ اس کے بغیر دورِ حاضر کے تقاضوں سے مسلم اُمّہ کما حقہٗ عہدہ بر آ نہیں ہوسکتی اور تعمیرو ترقی کی اِ س دوڑ میں مسلمان عصری تعلیم کے حصول کے بغیر پسماندہ رہ جائیں گے۔ جو لوگ عصری تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں بھی اس بات کا کسی نہ کسی درجہ میں احساس ضرور ہے کہ مسلمانوں کو بھی ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں، قانون داں، جغرافیہ داں، ماہرریاضی و فلسفہ و حکمت بننے کی سخت ضرورت ہے۔
            اسلا م کی حقیقت پسندانہ اور روشن و منور فکر کے باوجود دورِ حاضر کا یہ المیہ ہے کہ مسلمانوں کے علمی عروج و اقبال کا آفتاب جس طرح اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر کئی صدیوں تک اپنی پوری آب و تاب سے چمک دمک رہا تھا ۔ آج اُسی قدر وہ انحطاط و تنزلی کا شکارہے۔ عصری تعلیم کے فقدان کی وجہ سے ہم زندگی کے کئی اہم شعبہ جات میں اہلِ مغرب کی غیر محسوس غلامی کررہے ہیں ۔ معاشرت ،معیشت ، ثقافت، سیاست ،تجارت اور دیگر کئی اہم ترین معاملات میں مسلمان اغیار کے دریوزہ گربن کر رہ گئے ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے جس کا بدقسمتی سے ہم کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ مسلمان جس کی تخلیق دنیا کی رہنمائی کے لیے کی گئی ہے اور جس کے سر پر تاجِ خلافت سجایا گیا ہے، وہ آج خود نشانِ منزل کھو بیٹھا ہے اور سرابِ سفر کو مقصودِ حقیقی سمجھ کر اسی پر قانع و شاکر ہے۔ اسی لیے ذلت و نکبت کے دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنے شان دار ماضی اور عبرت ناک حال کو دیکھ کر روشن مستقبل کی عمارت کھڑی کرنے کی بہتر منصوبہ بندی کریں، اور یہ دورِ حاضر میں عصری تعلیم کے حصول کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg



Islam Ka Asri Taleemi Nazaria


اسلام کا عصری تعلیمی نظریہ
از: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
          اسلام نے کبھی بھی عصری تعلیم یا دنیاوی تعلیم کی مخالفت نہیں کی ہے۔ جاننا چاہیے کہ بنیادی دینی تعلیم ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن دینی تعلیم میں مہارتِ تامہ اور کامل دستگاہ ہر مسلمان کے لیے لازمی نہیں ۔ اگر ہر شخص دینی تعلیم میں کمال پیدا کرنے لگے گا تو عصری علوم کے ماہرین کہاں سے میسر آئیں گے ۔ جن کے بغیر اس خاکدانِ گیتی پر قوت و طاقت اور عزت و اقتدار کا تصور محال سا نظر آتا ہے۔ عصری تعلیم کی اہمیت اور فوائد سے کوئی بھی زندہ قوم قطعی انکار نہیں کرسکتی۔
           اللہ رب العزت نے انسان کے ناتواں کاندھوں پر خلافت کا بارِ گراں ڈالا ہے ۔ جس کے لیے دینی تعلیم کے شانہ بہ شانہ دنیا کے انتظام و انصرام کا طریقۂ کار اور ایجادات و اکتشافات کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا جاننا بے حد ضروری ہے۔
           اسلام کا عصری تعلیمی نظریہ بے حد واضح اور روشن ہے۔ اللہ رب العزت قرآنِ کریم میں فرماتا ہے :
          ’’ وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا،‘‘
          ’’اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیا) کے نام سکھائے۔‘‘ (سورہ بقرہ۔ ۳۱)
           اس آیتِ کریمہ کے ذیل میں صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین اشرفی مرادآبادی قد س سرہٗ لکھتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر تمام اشیا و جملہ مسمیات پیش فرماکر آپ کو ان کے اسما و صفات و افعال و خواص و اصول علوم و صناعات سب کا علم بہ طریقِ الہام عطافرمایا۔ ‘‘(خزائن العرفان)، مسمیات یعنی اشیاکی خصوصیات ، افعال اور علوم ہیں اور اسی کا نام ’’سائنس‘‘ ہے ، اسی سائنس کی تعلیم ’’جدید تعلیم‘‘ یا ’’دنیاوی تعلیم‘‘ یا عصری تعلیم‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دورِ جدید کے مفکرین نے عصری تعلیم کی بنیاد سیکولرزم اور لامذہبی نظریات پر کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر قسم کے علوم و فنون کا سرچشمہ اورمنبع قرآن کریم ہے خود رب تعالیٰ فرماتاہے :
          ’’ وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبً وَّلَا یَابِسٍ اِلّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ‘‘
          ’’ اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور خشک جو ایک روشن کتاب میں نہ لکھا ہو۔‘‘ (سورہ انعام ۔۵۹)
          اس آیتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں دونوں جہان کی ہر چیز کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ دینی علوم ہوں یا دنیاوی علوم ہر ایک کا منبع و ماخذ قرآن کریم ہی ہے۔
          اسلام کے عصری تعلیمی نظریہ کے تحت بدر کی فتح کے بعد اسیرانِ جنگ سے فدیہ کی وصولیابی اور انصار کے دس لڑکوں کی تعلیم کے واقعہ کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔غزوۂ بدر کے بعد قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی۔ ان میں سے جو نادار اور غریب تھے ، وہ بلامعاوضہ آزاد کردیے گئے۔ لیکن جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے انھیں حکم ہوا کہ انصار کے دس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں تو آزاد کردیے جائیں گے۔ چناں چہ کاتب وحی حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح لکھنا سیکھا۔(عام کتبِ سیرت)
          اس واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معلمِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نزدیک تعلیم کا حصول کس قدر اہم اور ضروری تھا۔ اسیرانِ بدرکا مسلمان بچوں کو لکھنا سکھانا اُس عہد کے لحاظ سے عصری تعلیم ہی کے زمرے میں آتا تھا۔
           اسلام جملہ مباح علوم و فنون بالخصوص سائنس کی اہمیت و افادیت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ شرعی دائرے میں رہتے ہوئے اس کی تحصیل و تکمیل کی طرف بھی راغب کرتا ہے۔ جو مذاہب انسانوں کو رہبانیت اور دنیا سے فرار کا درس دیتے ہیں ،اسلام اُن کے برخلاف سائنس اور دیگر جائز علوم و فنون کو نظامِ فطرت میں مداخلت تصور نہیں کرتا بلکہ مروجہ علوم و فنون میں مہارتِ تامہ کا پیغام دیتا ہے۔

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg


Taleem k Do Ahem Ajza Deeni Taleem Awr Asri Taleem

تعلیم کے دو اہم اجزا - دینی تعلیم اور عصری تعلیم
از : ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
          تعلیم کے دورُخ ہیں ، ایک: ’’عصری تعلیم‘ ‘جس کو’ ’دنیاوی تعلیم‘‘ یا ’’جدید تعلیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے ماہرین سیکولر انداز پر زور دیتے ہیں ۔اس سے صرف عصری یا دنیاوی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ دوسرا: ’’دینی تعلیم‘‘ جس کو’’مذہبی تعلیم‘‘ یا ’’روایتی تعلیم‘‘ بھی کہتے ہیں ۔اس تعلیم سے دونوں فائدے ہیں دنیوی اور اخروی۔ یہی وہ علم یا تعلیم ہے جو دنیا کے تمام تر علوم و معارف کا سرچشمہ اور منبع ہے۔ دنیا کے تمام علوم اسی کے مرہونِ منت ہیں۔
          کئی صدیوں پیشتر دینی تعلیم کے علما ہی اُس دور کے عصری تعلیم کے بھی امام ہوتے تھے۔ابن سینا، فارابی، جابر بن حیان، رازی، ابن رشد، ابوالہیشم ،خیام، خوارزمی، عبد المالک اصمعی، البیرونی، غزالی وغیرہ مسلم دانش وروں اور علما نے اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہتے ہوئے اُس زمانے میں دینی علوم و فنون میں کامل دستگاہ کے ساتھ ساتھ اُس دور کی ’’عصری تعلیم‘‘ کے بھی امام نظر آتے تھے۔ ان حضرات نے اپنے عہد کی ’’عصری تعلیم‘‘ میں وہ روشن نقوش مرتب کیے ہیں کہ آج کی جدید سائنسی دنیا انھیں کا پس خوردہ کھا کر ہمیں ورطۂ حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔


..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg


Taleem Ki Ahemiat Awr Zaroorat


تعلیم کی اہمیت وضرورت
از: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی

    انسانی زندگی میں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت ایک ایسی مسلمہ سچائی ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ زمانۂ قدیم سے دورِ حاضر تک ہر متمدن اور مہذب معاشرے نے تعلیم کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے تحصیلِ علم کی طرف توجہ مرکوز رکھی۔ تعلیم کی تکمیل کے لیے بھی ہر دور میں اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ اسلام نے بھی انسانی فطرت کے مطابق علم حاصل کرنے کی ہر لمحہ حوصلہ افزائی فرمائی۔ پہلی وحی کا نور بھی علم کی تلقین کرتا ہوا تشریف لایا، ’’اقرأ‘‘- پڑھو اپنے رب کے نام جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا۔ قرآنِ کریم میں جابجا تعلیم کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کی زیادتی کی دعا سکھائی : ’’ اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے ۔‘‘( سورہ طٰہٰ ۱۱۴)۔اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک علم سے اہم کوئی شئے ہوتی تو اُ س میں اضافہ کی دعا تلقین فرماتا ۔ اسی طرح اللہ نے کہیں اہل علم کو بلند مقام و منصب والا فرمایا تو کہیں تعلیم و تعلم کے احسان کا ذکر فرمایا۔ اللہ جل شانہٗ نے جگہ جگہ علم کی اہمیت کا بیان فرمایا ۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے مزید لگاسکتے ہیں کہ قرآن کریم میں علم کا ذکر ۸۰؍ بار اور علم سے نکلے ہوئے الفاظ کا ذکر متعدد بار آیا ہے۔
    قرآن کریم کے علاوہ احادیثِ طیبہ میں بھی تعلیم کی اہمیت کے نقوش جابجا ملتے ہیں ۔ احادیث کی کتب میں پورے پورے ابواب علم سے متعلق ملیں گے۔ بخاری شریف میں وحی کی ابتدا اور ایمان کے بعد ہی علم کا باب شروع ہوتا ہے ۔ بخاری شریف میں صحابۂ کرام اور تابعین کی ۷۴؍ حدیثیں اور ۲۲؍ روایتیں علم کی فضیلت و اہمیت پر ہیں۔
    بخاری شریف کے علاوہ صحاحِ ستہ کی کتب میں بھی علم سے متعلق ابواب محدثین کرام نے آراستہ کیے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و تربیت کو اپنی بعثت کا مقصد بتایا۔ بہ کثرت احادیث سے تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ گود سے لے گور تک علم حاصل کرنے کا تصور بھی اسلام ہی نے دیا ۔مردو عورت کو بہ قدر ضرورت تعلیم حاصل کرنا اسلام ہی نے فرض قرار دیا۔
    تعلیم کی اہمیت اور ضرورت سے متعلق ایک عام خیال یہ بھی ہوتا ہے کہ تعلیم اس لیے حاصل کی جائے کہ وہ ملازمت کے حصول کے لیے ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے اور تعلیم سے روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ تعلیم انسان کے لیے ذریعۂ معاش بنتی ہے لیکن تعلیم کی اصل اہمیت آدمی کو باشعور بنانا ہے۔ پہلے تعلیم کا رشتہ معاش سے کم اور زندگی سے زیادہ جڑا ہوا تھا ۔ لوگ انسان بننے کے لیے علم حاصل کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں انسانیت اور اقدار کا تصور توانا تھا ۔ اب جب کہ تعلیم کا مقصد محض ملازمت اور تجارت بنتا جارہا ہے تو معاشرے سے اعلیٰ اقدار اور صفات ختم ہوتی جارہی ہیں۔ لہٰذا تعلیم کی اہمیت اور فوائد میں اصل انسان کا انسان بننا ہے۔

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg


Sunday 5 February 2017

Asri Taleem k Fawaed Daur E Hazir Me

No automatic alt text available. 
Asri Taleem k Fawaed Daur E Hazir Me
 
https://archive.org/download/JigarMuradabadiByDrMushahidRazvi/Jigar%20Muradabadi.pdf

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg