(حدیث)علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے

علم انسان کو صحیح طریقے سے زندگی گذارنے کا طریقہ بتاتا ہے ۔ کامیاب انسان وہی ہے جس نے علم حاصل کیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ ڈاکٹر مشاہد رضوی

Read the go ahead . سب پڑھیں ۔آگے بڑھیں

یوں علم کی چاہ میں نکلے ہیں اپنا بھی نشاں معلوم نہیں ۔۔۔ جانا ہے وہاں ، منزل ہے جہاں ، منزل ہے کہاں ، معلوم نہیں

Knowledge is Light.Prophet Hazrat Muhammed Peace Be Upon Him

The Hadith of the Prophet Hazrat Muhammed Peace Be Upon Him

Eat Half Bread....Educate children آدهی روٹی كهایئے ۔ بچوں كو پڑهائیے ۔ سید نجیب حیدر میاں برکاتی

Slogan Khanqah E Barkaatia Marehra Shareef خانقاہ برکاتیہ ، مارہرہ مطہرہ کا نعرہ

Monday 20 March 2017

Kuch Imla Ki Baten



کچھ املا کی باتیں
(1) اعلیٰ، ادنیٰ، عیسیٰ، موسیٰ
عربی کے کچھ لفظوں کے آخر میں جہاں الف کی آواز ہے، وہاں بجائے الف کے ی لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، دعویٰ، فتویٰ۔ اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں، مثلاً تماشا، تمنا، تقاضا، مدعا، مولا، لیکن کئی لفظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں ٹھیک سے معلوم نہیں کہ انھیں پورے الف سے لکھنا چاہیے یا چھوٹے الف سے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے املا کے اس انتشار کو دور کرنے کے لیے تجویز کیا تھا کہ اردو میں ایسے تمام الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے، لیکن یہ چلن میں نہیں آ سکا۔ چنانچہ سرِ دست یہ اصول ہونا چاہیے کہ اس قبیل کے جو الفاظ اردو میں پورے الف سے لکھے جاتے ہیں اور ان کا یہ املا رائج ہو چکا ہے، ایسے الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے۔ باقی تمام الفاظ کے قدیم املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، اور یہ بدستور چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں۔
پورے الف سے لکھے جانے والے الفاظ:
مولا مُصفّا تَوَلّا مُدّعا تقاضا مُتفا تماشا
مُدّعا علیہ تمنّا ہیولا نصارا مقتدا مقتضا ماوا

باقی تمام الفاظ چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں:
ادنیٰ اعلیٰ عیسیٰ موسیٰ یحییٰ مجتبیٰ مصطفیٰ مرتضیٰ
دعویٰ فتویٰ لیلیٰ تعالیٰ معلیٰ صغریٰ کبریٰ کسریٰ
اولیٰ منادیٰ مثنیٰ مقفیٰ طوبیٰ ہدیٰ معریٰ عقبیٰ
تقویٰ متبنّیٰ حسنیٰ قویٰ مستثنیٰ حتیٰ کہ عہدِ وسطیٰ مجلسِ شوریٰ
یدِ طولیٰ اردوئے معلّیٰ من و سلویٰ عید الضّحیٰ مسجد اقصیٰ سدرۃ المنتہیٰ شمس الہدیٰ

ذیل کے الفاظ کے رائج املا میں بھی کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں:
اللہ الہ الٰہی






(2) دعوائے پارسائی، لیلائے شب
اضافت کی صورت میں ایسے تمام الفاظ الف سے لکھے جاتے ہیں اور یہی صحیح ہے، جیسے:
لیلائے شب دعوائے پارسائی فتوائے جہاں داری

(3) عربی مرکبات
یہ بات اصول کے طور پر تسلیم کر لینی چاہیے کہ عربی کے مرکّبات، جملے، عبارتیں یا اجزا جب اردو میں منقول ہوں تو ان کو عربی طریقے کے مطابق لکھا جائے، مثلاً
عَلَی الصّباح عَلَی الرَّغم عَلَی العُموم عَلَی الحساب عَلَی الخُصوص حتّی الاِمکان حتّی الوَسع حتّی المقدور
بالخُصوص عَلیٰ ہٰذا لقَیاس

(4) رحمٰن، اسمٰعیل
بعض عربی الفاظ میں چھوٹا الف درمیانی حالت میں لکھا جاتا ہے، جیسے رحمٰن، اسمٰعیل، ان میں سے کئی لفظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی یہ تجویز مناسب ہے کہ اردو میں ایسے سب الفاظ کو الف کے ساتھ لکھا جائے۔
رحمان ابراہیم سلیمان مولانا یاسین اسحاق لقمان اسماعیل
البتہ جب ایسا کوئی لفظ قرآن پاک کی سورتوں کے نام یا اللہ کے اسمائے صفات کے طور پر استعمال ہو گا تو اس کا اصلی املا برقرار رہے گا۔ عربی ترکیب میں بھی اصلی املا برقرار رہنا چاہیے۔

(5) علٰحدہ
علٰحدہ یا علیحدہ کو علاحدہ لکھنا چاہیے، اسی طرح علاحدگی (ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی)

(6) لہٰذا
لفظ لہٰذا کی بھی رائج صورت میں تبدیلی کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ لفظ اسی املا کے ساتھ پوری چلن میں آ چکا ہے۔

(7) معمّہ، تمغہ، معمّا، تمغا
عربی اور ترکی کے کچھ لفظوں کے آخر میں الف ہے، لیکن ان میں سے بعض لفظ ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ اس بارے میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو لفظ ہ سے رائج ہو چکے ہیں، ان کا املا ہ سے مان لینا چاہیے، باقی الفاظ کو الف سے لکھنا چاہیے۔ ذیل کے الفاظ ہ سے صحیح ہیں:
شوربہ چغہ سقہ عاشورہ قورمہ ناشتہ ملغوبہ الغوزہ

ذیل کے الفاظ الف سے لکھنے چاہییں:
معمّا تماشا تقاضا حلوا مربّا مچلکا بقایا تمغا
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے بھی ان میں سے بیشتر الفاظ کو الف سے لکھنے کی سفارش کی ہے۔

(8) بالکل، بالتّرتیب
ایسے مرکب لفظ اردو میں اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو عربی قاعدے کے مطابق الف لام کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ ایسے مرکّبات کی دو صورتیں ہیں، ایک وہ جہاں الف لام حروفِ شمسی (ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل، ن) سے پہلے آیا ہے اور بعد کا حرف مشدّد بولا جاتا ہے تو الف لام آواز نہیں دیتا، جیسے عبد السّتار یا بالتّرتیب میں۔ دوسرے وہ جن میں الف لام حروفِ قمری (باقی تمام حروف) سے پہلے آیا ہے تو لام تلفظ میں شامل رہتا ہے، جیسے بالکل یا ملک الموت میں۔ ہمیں سیّد ہاشمی فرید آبادی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کہ حروفِ شمسی و قمری کا فرق اردو میں اٹھا دینا چاہیے، ہمارا خیال ہے کہ یہ طریقہ اردو املا کا جز ہو چکا ہے، اِس کو بدلنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کا وہی قدیم املا برقرار رکھنا چاہیے:
فی الحال بالکل انا الحق بالفعل ملک الموت

البتہ یہ ضروری ہے کہ جہاں الف لام آواز نہ دے وہاں لام کے بعد والے حرف پر تشدید لگائی جائے، اور ان الفاظ میں الف لام کو اردو کے خاموش حروف تسلیم کر لیا جائے۔ پڑھنے والوں کو تشدید سے معلوم ہو جائے گا کہ الف لام تلفظ میں نہ آئے گا:
عبدُ السّتّار شجاعُ الدّولہ عبدُ الرّزّاق لغاتُ النّساء بالتّرتیب فخرُ الدّین


الف ممدودہ

الف ممدودہ کا مسئلہ صرف مرکّبات میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی دل آرام لکھا جائے یا دلارام۔ ایسی صورت میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ معیاری تلفّظ کو رہنما بنایا جائے اور مرکّب جیسے بولا جاتا ہو، ویسے ہی لکھا جائے۔

بغیر مد کے:
برفاب تیزاب سیلاب غرقاب سیماب زہراب گلافتاب تلخاب
سردابہ گرمابہ مرغابی خوشامد دستاویز

مع مد کے:
گرد آلود دل آویز عالم آرا جہان آباد دل آرا دل آرام دو آبہ ابر آلود
خمار آلود قہر آلود زہر آلود زنگ آلود خون آلود رنگ آمیز درد آمیز جہاں آرا
حسن آرا خانہ آباد عشق آباد عدم آباد


تنوین

اردو میں عربی کے ایسے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں جن پر دو زبر آتے ہیں، جیسے فوراً، عموماً، وقتاً، فوقتاً، اتفاقاً۔ تنوین اردو املا کا حصّہ بن چکی ہے۔ اس لیے اسے بدلنا مناسب نہیں۔ چنانچہ فوراً کو فورن لکھنے کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔ اس کو فوراً لکھنا ہی صحیح ہے۔ البتہ وہ لفظ تصفیہ طلب ہیں جن کے آخر میں ت آتی ہے۔ ایسے لفظوں کے بارے عربی املا کا اصول یہ ہے کہ اگر ت کسی لفظ کے مادے میں شامل ہے تو تنوین کی صورت میں اُس پر الف کا اضافہ کر کے تنوین لگائی جاتی ہے، جیسے وقتاً فوقتاً۔ لیکن اگر ت مادے میں شامل نہیں تو وہ تائے مُدَوَّرہ ۃ کی صورت میں لکھی جاتی ہے اور اس پر دو زبر لگا دیے جاتے ہیں، جیسے عادۃً۔ اس صورت میں الف کا اضافہ نہیں کیا جاتا اور تنوین تائے مُدَوَّرہ پر لگائی جاتی ہے۔ اردو املا میں عام طور سے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا، اور تنوین ایسے تمام الفاظ میں الف کا اضافہ کر کے لگائی جاتی ہے۔
اس ضمن میں ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس اصول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ "عربی کی ۃ کو اردو میں ہمیشہ ت لکھنا چاہیے"۔ چنانچہ اردو میں تنوین کے لیے ت والے لفظوں کے بارے میں قاعدہ یہ ہوا کہ سب لفظوں کے آخر میں الف کا اضافہ کر کے تنوین لکھی جائے، مثلاً
نسبتاً مروَّتاً کنایتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً شکایتاً کلیتاً
قدرتاً حقیقتاً حکایتاً طبیعتاً وقتاً فوقتاً شریعتاً طاقتاً
اشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقیدتاً وضاحتاً شرارتاً


..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg



Hamza Ka Istemal



ہمزہ کا استعمال
از: محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
اردو حروٗفِ تہجی میں ہمزہ(ء)بہت سے لفظوں میں الف(ا) کی مخصوص آواز ظاہر کرنے والی علامت ہے ۔مثلاً:گئے،ہوئے،نئے وغیرہ۔

         


جیے کو’ جئے یاجیئے‘۔لکھیے کو ’لکھئے یا لکھیئے‘کیجیے کو’ کیجئے‘ یا كیجئیے‘ اور چاهیے كو ’چاهئے‘ یا ’چاهئیے‘ لکھنا غلط ہے۔ایسے لفظوں میں ہمزہ کی بجاے ’’یے‘‘کااستعمال کرنا چاہیے۔البتہ لائیے،کھائیے،دکھائیے وغیرہ لفظوں میںہمزہ اور یے دونوں لکھے جاتے ہیں اس لیے کہ یہ مصدر لانا، کھانا، دکھانا سے بنے ہیںاسی طرح لائے ، کھائے، دکھائے/ لاؤ، کھاؤ ، دکھاؤ وغیرہ حالتِ مصدری والے الفاظ میں ’’یاے‘‘اور ’’واو‘‘ پر ہمزہ رہے گا ۔ لیکن چاے، سواے، گاے، سراے، بجاے / دباو(ہوا کا دباو)، ناو، پاو(کھانے کی شَے)، راو، جماو(برف کا جماو ) وغیرہ الفاظ جوکہ مصدر سے نہیں ہیں ان پر ہمزہ نہیں رہے گا(اگر مصدر بجانا/ دبانا/پانا/جمانا وغیرہ سے بجائے، بجاؤ/ دبائے ، دباؤ/ پائے، پاؤ/ جمائے ، جماؤ لکھیں گے تو ہمزہ رہے گا)۔
لَے، قَے، طَے، شَے، جَے، مَے جیسے لفظوں پر ہمزہ نہیں لگانا چاہیے۔نیز دوالفاظ کو باہم ملانے والی’’ یاے‘‘ پر ہمزہ نہیں رہے گا۔ مثلاً:بوے دل، جستجوے خدا/ براے نام، عطاے عام / مفتیِ اعظم، زندگیِ نَووغیرہ ۔ نمایش، آرایش، زیبایش وغیرہ میں ہمزہ نہیں رہے گا، جب کہ لائق، فائق، شائق /دائم، قائم، صائم/ شائع، ضائع، مائع وغیرہ پر ہمزہ رہے گا۔
اسی طرح اردو میں اولیا، اصفیا، انبیا، علما، غربا وغیرہ الفاظ میں ہمزہ نہیں آئے گا نہ الف کے اوپر(أ) نہ ہی الف کے بعد (اء) ۔ البتہ جب ان الفاظ کا استعمال عربی ترکیب کے ساتھ ہوگا مثلاً: العلماء، الانبیاء ، الاصفیاء تو الف کے اوپر ہمزہ (العلمأ الاولیأ، الاصفیأ ) نہیں آئے گا بلکہ الف کے بعد(اء) آئے گا۔
(عملی قواعدِ اردو، از: محمد حسین مشاہد رضوی سے ایک صفحہ،۔۔۔۔۔ مکمل کتاب کی پی ڈی ایف لنک کمینٹ میں دیکھیں)



..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg

Thursday 9 March 2017

Formative Summative Evaluation

सातत्यपूर्ण सर्वंकष शैक्षणिक मूल्यमापन

सातत्यपूर्ण सर्वंकष मूल्यमापन प्रक्रिया – 

अ) आकारिक मूल्यमापन (Formative Evaluation) – 

              विद्यार्थ्यांचे व्यक्तिमत्व आकार घेत असतांना नियमित करण्याचे मूल्यमापन म्हणजे आकारिक मूल्यमापन होय. या मूल्यमापनात पुढील साधनतंत्रे उपयोगात आणून वर्गपातळीवर प्रत्येक विद्यार्थ्याच्या नोंदी ठेवणे अपेक्षित आहे.
  1. दैनंदिन निरीक्षण
  2. तोंडी काम (प्रश्नोत्तरे, प्रकटवाचन, भाषण संभाषण, भूमिकाभिनय, मुलाखत, गटचर्चा इत्यादी)
  3. प्रात्यक्षिक / प्रयोग
  4. उपक्रम / कृती (वैयक्तिक, गटांत, स्वयंअध्ययनाद्वारे)
  5. प्रकल्प
  6. चाचणी – (वेळापत्रक जाहीर न करता अनौपचारीक स्वरुपात घ्यावयाची छोट्या कालावधीची लेखी चाचणी / पुस्तकासह चाचणी (Open book test))
  7. स्वाध्याय / वर्गकार्य
  8. इतर – (प्रश्नावली, सहाध्यायी मूल्यमापन, स्वयंमूल्यमापन, गटकार्य अशा प्रकारची अन्य साधने.)
             वरील साधन तंत्रापैकी इयत्ता, विषय व उद्दिष्टे विचारात घेवून अधिकाधिक साधन तंत्राचा वापर करावा.

            मूल्यमापन करतांना किमान पाच साधनतंत्राचा वापर करावा, तर कला व संगीत, कार्यानुभव, शारीरिक शिक्षण व आरोग्य या विषयासाठी दैनंदिन निरीक्षण, प्रात्यक्षिक व उपक्रम/कृती या तीन साधनतंत्राचा वापर करावा. तसेच विद्यार्थ्यांना वर्षभरात किमान एक प्रकल्प व प्रत्येक सत्रात किमान एक छोट्या कालावधीची लेखी चाचणी / पुस्तकांसह लेखी चाचणी (Open book test) घेणे अपेक्षित आहे.
ब) संकलित मूल्यमापन (Summative Evaluation)-

             संकलित मूल्यमापन म्हणजे ठरावीक कालावधीनंतर एकत्रित स्वरुपाचे करावयाचे मूल्यमापन-लेखी, तोंडी, प्रात्यक्षिक प्रश्नांचा समावेश असणारे प्रथम सत्राच्या अखेरीस पहिले व सत्राच्या अखेरीस दुसरे संकलित मूल्यमापन करायचे आहे.

प्रत्येक सत्रासाठी व विषयासाठी (कला व संगीत, कार्यानुभव आणि शारीरिक शिक्षण व आरोग्य हे विषय वगळावे.)
इयत्ताआकारिक मूल्यमापनसंकलित मूल्यमापनएकूण


तोंडी+प्रात्य.लेखी
पहिली व दुसरी७० गुण१० गुण२० गुण१०० गुण
तिसरी व चौथी६० गुण१० गुण३० गुण१०० गुण
पाचवी व सहावी५० गुण१० गुण४० गुण१०० गुण
सातवी व आठवी४० गुण१० गुण५० गुण१०० गुण
टिप - 
         इयत्ता १ली व २री इंग्रजी विषयाचे संकलित मूल्यमापन तोंडी / प्रात्यक्षिक स्वरूपात करावे. 
(इंग्रजी माध्यमाव्यतिरिक्त शाळा)
         *** बालकांच्या मोफत व सक्तीच्या शिक्षणाचा हक्क अधिनियम २००९ कलम २९ नुसार

सातत्यपूर्ण सर्वंकष मूल्यमापन प्रक्रिया निर्धारित करतांना पुढील बाबी लक्षात घ्याव्यात.

अ) संविधानात असलेल्या मूल्यांशी अभिसंगत असणे.

ब) बालकांचा सर्वंकष विकास साधणे.

क) बालकांचे ज्ञान, क्षमता व विशेष बुद्धीमत्ता विकसित करणे.

ड) शारीरिक व बौद्धिक क्षमतांचा जास्तीत जास्त विकास करणे.

ई) बालसुलभ व बालकेंद्रित पद्धतीने उपक्रम, शोध व संशोधन या माध्यमांतून शिक्षण देणे.

फ) बालकाला भीती, दडपण व चिंता यापासून मुक्त ठेवणे आणि आपली मते मुक्तपणे व्यक्त करण्यास त्याला मदत करणे.

ग) बालकांच्या ज्ञान आकलनाचे व्यापक व अखंडपणे मूल्यमापन करणे आणि त्याकरिता त्याची योग्यता वाढविणे.
सातत्यपूर्ण सर्वंकष मूल्यमापन पद्धतीमुळे काय साध्य होईल ?

  १. या पद्धतीमुळे अध्ययन सुरु असतानाच नियमितपणे विद्यार्थ्यांचे मूल्यमापन होईल.
  २. वेळोवेळी मिळालेले मार्गदर्शन, सकारात्मक शेरे यामुळे विद्यार्थ्यांना शिकण्याची प्रेरणा मिळेल.
  ३. या मूल्यमापन पद्धतीच्या अवलंबामुळे शिक्षण प्रक्रिया कार्याशी, जीवनाशी जोडली जाण्यास मदत होईल.
  ४. अध्ययनाच्या वेळी मूल्यमापन आणि मूल्यमापनाच्या वेळी अध्ययन यासाठी मार्गदर्शन होणार असल्यामुळे शैक्षणिक गुणवत्ता विकासास मोठ्या प्रमाणात प्रेरणा आणि प्रोत्साहन मिळेल.
  ५. श्रेणी पद्धतीच्या अवलंबामुळे विद्यार्थ्या-विद्यार्थ्यांमधील प्रगतीची अनावश्यक तुलना कमी होईल आणि विद्यार्थ्याच्या प्रगतीची त्याच्या स्वतःच्या प्रगतीशी तुलना होत राहील.
  ६. पालकांना विद्यार्थ्यांच्या प्रगतीबाबत माहिती मिळेल.
  ७. विद्यार्थ्यांच्या प्रगतीच्या उल्लेखनीय बाबींचे सारांशरूपाने वर्णनात्मक चित्र प्रगतिपत्रकात नोंदविले जाईल. विद्यार्थ्यांच्या व्यक्तिगत गुणांच्या विकासाला चालना मिळेल.
  ८. शिक्षकांच्या उपक्रमशीलतेला, प्रयोगशीलतेला आणि कल्पकतेला अधिक चालना मिळेल.
  ९. सातत्यपूर्ण सर्वंकष मूल्यमापन हे अनौपचारिक स्वरूपात होणार असल्यामुळे विद्यार्थ्यांवरील दडपण कमी होऊन ती आनंददायी आणि ताणविरहित होण्यास मदत होईल.
  १०. विद्यार्थ्यांचा अभ्यासक्रम त्या त्या वर्षी पूर्ण करून घेण्याची तरतूद करण्यात आली आहे. कोणत्याही विद्यार्थ्याला त्याच वर्गात ठेवता येणार नाही. त्यामुळे कोणत्याही विद्यार्थ्यांचे वर्ष वाया जाणार नाही.
  ११. विद्यार्थ्यांचे सातत्याने मूल्यमापन होत असल्यामुळे शिक्षकांनाही वेळोवेळी आपल्या अध्यापनातील उणिवा लक्षात येऊन त्या वेळीच त्या वेळीच दूर करण्याची संधी मिळेल.
 

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg

Service Book Detail

Service Book Detail 

सेवा पुस्तकातील नोंदी

सेवापुस्तीका अद्यावत करणे बाबत

सेवापुस्तक अद्ययावत करतांना खालील बाबींच्या नोंदी केलेल्या आहेत किंवा नाही हे तपासून पहावे व नसतील तर तशा नोंदी घेऊन सेवापुस्तक अद्ययावत करावे.

👉१. पहिल्या पानावरील जन्मतारखेची नोंद पडताळणी
👉२. पहिल्या पानावरील नोंद दर पाच वर्षांनी तपासणी करुन प्रमाणित करणे.
👉३. वैद्यकिय दाखल्याची  नोंद.
👉४. जात पडताळणी बाबतची नोंद.
👉५. भविष्य निर्वाह निधी खाते क्रमांक नोंद.
👉६. निवृत्तीवेतन नामनिर्देशनाची नोंद.
👉७. मृत्यू अन सेवानिवृत्ती उपदान नामनिर्देशनाची नोंद.
👉८. गटविमा योजणेच्या सदस्यत्वाची नोंद.
👉९. गटविमा योजणेच्या वर्गणीची नोंद. ( सुरुवातीची व वेळोवेळी बदलानुसार )
👉१०. गटविमा नामनिर्देशनाची नोंद.
👉११. विहीत संगणक अर्हता परिक्षा उत्तीर्ण नोंद.
👉१२. सेवांतर्गत प्रशिक्षणाची नोंद.
👉१३. वार्षिक वेतनवाढ नोंद.
👉१४. वार्षिक वेतनवाढ मंजुरीनंतर रकाना क्र. ८ मध्ये कर्मचाऱ्याची स्वाक्षरी.
👉१५. नाव बदलाची नोंद.
👉१६. बदली / पदोन्नती / अन्य नियुक्ती आदेशाची नोंद.
👉१७. बदली / पदोन्नती / अन्य नियुक्ती नुसार कार्यमुक्त / हजर / पदग्रहण अवधी नोंद.
👉१८. सेवेत कायम केल्याची नोंद.
👉१९. स्वग्राम घोषनापत्राची नोंद.
👉२०. वेतन आयोगानुसार वेतन निश्चिती नोंद व पडताळणीची नोंद.
👉२१. पदोन्नती / आश्वासित प्रगती योजना / एकस्तर यामुळे झालेल्या वेतन निश्चितीची नोंद.
👉२२. पुरस्कार प तद्नुषंगिक अनुज्ञेय लाभाच्या नोंदी.
👉२३. अर्जीत / परावर्तीत रजा दर सहामाही जमा केल्याची नोंद.
👉२४. घेतलेल्या रजेच्या आदेशाची नोंद व रजा लेख्यात खर्ची घातल्याची नोंद.
👉२५. रजा प्रवास सवलत नोंद.
👉२६. दुय्यम सेवापुस्तक दिल्याबाबतची नोंद.
👉२७. मानीव दिनांक / वेतन समानीकरण संबंधीच्या नोंदी.
👉२८. सेवा पडताळणीची नोंद.
👉२९. जनगणना रजा नोंद.
👉३०. सुट्टीच्या कालावधीत प्रशिक्षण झालेल्या रजा नोंदी.
👉३१)हिंदी व मराठी भाषा पास झाल्याची वा सुट मिळाल्याची नोंद

:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg

 

Thursday 2 March 2017

Daure Hazir Me Musalmanon Ki Taleemi Pasmandagi




دورِ حاضر میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی
          تعلیم اور مسلمانوں کا ہردور میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک تعلیم کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی کا نور بھی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے نازل ہوا۔
          تعلیم کسی بھی قوم کے لیے ترقی کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہے۔ جوقومیں علم حاصل کرنے میں کمال پیدا کرتے ہوئے اس کی روشنی سے استفادہ کرتی ہیں وہی قومیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرکے دنیا پر حکمرانی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرتی ہیں۔
          دورِ حاضر میں مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کا گراف تشویش ناک ہے۔ ۵۷؍ آزاد اور خود مختار اسلامی ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباً سوا ارب ہے اس آبادی کا تقریباً ۴۰؍ فی صد حصہ اَن پڑھ ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں موجود ۲۰؍ فی صد یونیورسٹیز کی تعداد تقریباً ۳۵۰؍ ہے ۔ جن میں نمایاں طور پرجامعہ الازہر (قاہرہ مصر ۹۷۰ء)، پنجاب یونی ورسٹی (لاہور ۱۸۸۲ء) ،تہران یونی ورسٹی ( دانش گاہِ تہران ۱۸۵۱ء) ، انڈونیشیا یونی ورسٹی ( جکارتہ ۱۹۵۰ء) ، جامعہ ملک سعود (ریاض ۱۹۵۷ء) وغیرہ شامل ہیں۔اِن یونیورسٹیوں سے سالانہ ایک ہزار افراد پی ایچ ڈی کرتے ہیں ۔؂
 


          سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اِن اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف ۸۰؍ لاکھ کے قریب ہے ۔ جو ان شعبوں میں مصروف عالمی آبادی کا تقریباً ۴؍ فی صد ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور ۲۰؍ لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں ۔ جب کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی سائنسی اور تحقیقی کتب اور مقالات کی سالانہ تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔ اور یہ سب عصری تعلیم میں مسلمانوں کی تشویش ناک پسماندگی کا ایک ثبوت ہے۔
          مختلف اخباری رپورٹوں کی بنیاد پر کیا گیا درج بالا تجزیہ اُن اسلامی ممالک کا مجموعی حال ہے ۔ جن کی آزاد مملکتیں زمین کے تقریباً تین کروڑ مربع کلو میڑ پر محیط ہیں ۔یہ وہ مملکتیں ہیں جو دنیا میں موجود تیل کے مجموعی ذخائر کے تین چوتھائی حصے کی مالک ہیں اور جنھیں بے پناہ قدرتی وسائل سے استفادے کی سہولت میسر ہے۔ باوجود اس کے عصری تعلیم میں مغرب سے مقابلہ کرنے کی بجائے غفلت اور تساہلی نے اسلامی ممالک کو ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ مسلمان آج عصری تعلیم میں تو پسماندگی کے شکار ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ دینی تعلیم میں بھی مسلمانوں کی ترقی قابلِ ذکر نہیں ہے۔
          وطنِ عزیز ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیمی کیفیت بھی بڑی دگرگوں اور حد درجہ تشویش ناک ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کے جملہ شعبہ جات سے متعلق تحقیقی جائزہ لینے کے لیے حکومت ہند نے ۲۰۰۴ء میں جسٹس راجندر سچر کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ۔ جس نے بڑی عرق ریزی اور جا ں فشانی سے ہندوستانی مسلمانوں کی اقتصادی ، تعلیمی ، سماجی اور دیگر شعبوں سے متعلق جو رپورٹ پیش کی وہ نہایت چشم کشا اور المیہ انگیز ہے۔
          سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق بہ حیثیتِ مجموعی مسلمان ہندوستان میںنہایت پسماندہ ہیں ،نہ تو معاشی طور پر مضبوط ہیں اور نہ ہی سماجی طور پر دیگر قوموں کے مقابلہ میں بلند معیار ہیں، رہا مسئلہ تعلیم کا تو تعلیم کے علمبردار ہونے کے باوجود مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی نہایت درجہ تشویش ناک ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں عموماً یہ تصور عام رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کوزیادہ تر مذہبی تعلیم ہی دلواتے ہیں۔ لیکن سچر کمیٹی نے اس حقیقت کو بھی واشگاف کیا کہ مسلمانوں کے صرف چار فی صد بچے ہی دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ یہ اعدادو شمار صرف عام لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے لیے بھی کسی المیہ سے کم نہیں کہ ہندوستان میں صرف چار فی صد مسلم بچے دینی تعلیم کے حصول میں کوشاں ہیں جب کہ آبادی کے تناسب سے یہ اعداد و شمار کم از کم ۵۰؍ فی صد تو ہونے چاہئیں۔ لیکن مسلمان عصری تعلیم تو کجا ،دینی تعلیم میں بھی پسماندگی کا شکار ہیں ۔
          سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے اجزا کا جب ہم تحلیلی جائزہ لیتے ہیں تو ہم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ ہندوستان کی مجموعی آبادی کے لحاظ سے عصری درسگاہوں ،اسکولس، کالجز اور یونی ورسٹیز میں ہماری تعداد انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہے۔ ہندوستان کی مجموعی شرح خواندگی حالیہ مردم شماری کے مطابق ۶۵؍ فی صد ہے ۔ مسلمانوں میں یہ شرح ۵۹؍ فی صد ہے جب کہ ہندو ۶۵؍ فی صد ، عیسائی ۸۰؍ فی صد ، سکھ ۶۹؍ فی صد ، بدھ ۷۲؍ فی صد اور جین ۹۴؍ فی صد کے ساتھ تعلیمی میدان میں سب سے آگے ہیں ۔مسلمانوں میں مردوں کی شرح خواندگی ۶۸؍ فی صد اور عورتوں کی شرح خواندگی ۵۰؍ فی صد ہے ، جو کہ متذکرہ بالا شمارکرائے گئے دیگر مذاہب کی شرح خواندگی سے بہت ہی کم ہے۔ جس مذہبِ مہذب کی بنیاد ہی تعلیم و تعلم پر ہے ، اور جس کے مقدس پیغمبر معلمِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور اُن پر نازل شدہ قرآن کریم کی بے شمار آیات تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرے ، آخر کیوں اُسی مذہب کے ماننے والے تعلیم کے میدان میں افسوسناک حد تک دیگر مذاہب سے اس قدَر بچھڑے ہوئے ہیں کہ الامان و الحفیظ!!
          مسلمانوں کا شان دار ماضی بس ایک قصۂ پارینہ بن کر رہ گیا ہے ۔ اب تو حالات اس قدَر سنگین ہوچکے ہیں کہ اپنی علمی فتوحات سے بھی ہم ناواقف ہوتے جارہے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی دورِ حاضر میں تعلیمی پسماندگی ہمارے لیے سامانِ عبرت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی ذمہ داری حکومت کے سر نہ ڈالتے ہوئے اپنا احتساب کریں کہ ہم اپنی اور اپنی قوم کی تعلیمی ترقی کے لیے کیا کررہے ہیں ۔مسلمانوں میں امیر طبقے کو چاہیے کہ وہ غریبوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے لیے اپنے تئیں اسکالر شپ اور وظائف کا نظم کرے تاکہ مسلم قوم کا تعلیمی میدان میں جاری جمود پر کنٹرول کیا جاسکے۔
          تعلیمی پسماندگی کے اس عبرت ناک اور تشویش ناک منظر نامے پر خانقاہِ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے صاحب سجادہ حضرت اقدس پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امین میاں صاحب قبلہ دام ظلہٗ کے قول:’’ آدھی روٹی کھائیے بچوں کو پڑھائیے ‘‘ پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی و عصری تعلیم سے دوری کے سبب پیدا شدہ پسماندگی کے اس عالمی تناظر میں باوقار زندگی گذارنے کے لیے تعلیم کا حصول نہایت اہم اور ضروری ہے۔ مسلم اُمّہ کو اپنا کھویا ہوا وقار واپس لانے کے لیے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے میدان میں کامرانیوں کا عَلَم بلند کرنا بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ عصری تعلیم کے حصول کے بغیر ہم ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بہ شانہ ہرگزنہیں چل سکتے ۔ 



..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg